Alfia alima

Add To collaction

ماس اور مٹی

ماس اور مٹی
سب سے پہلے حمد اس رب کی جس کی قدرتوں کا کچھ شمار نہیں۔ 

اس نے لاکھوں کروڑوں دنیائیں، کہکشائیں اور چاند سورج پیدا کئے۔ 

اس نے دس لاکھ میل قطر کا سورج بنایا اور اسے کائنات میں ایک نقطے کی حیثیت بخشی۔ اس نے اربوں کھربوں ایسے ستارے بنائے جن میں سے بعض کی روشنی ہم تک لاکھوں کروڑوں سالوں میں پہنچتی ہے۔ 

پھر درود اس نبیؐ پر جس نے بادشاہوں کو فقیری اور فقیروں کو بادشاہت دے کر ایک ہی صف میں کھڑا کر دیا اور اس نے ان کی عقلوں سے پتھر ہٹا کر اپنے پیٹ پر باندھ لئے۔ 

پھر سلام روشنی کے ان میناروں کو جنہوں نے باطل کا ساتھ نہ دیا اور حق کی خاطر اپنی گردنیں کٹوائیں اور کھالیں اتروائیں۔ 

پھر رحمت ان عظیم لوگوں پر جنہوں نے فضا میں ایتھر، زمین میں تیل اور ایٹم میں الیکٹرون پروٹون دریافت کئے۔ 

اور آخر میں شاباش ان بہادروں کو جنہوں نے ہر حال میں زندگی کا سفر جاری رکھا اور اس رب کا جس کا ذکر اوپر آیا ہے لاکھ لاکھ شکر ادا کیا۔ 

حمد، نعت اور اس تمہید کے بعد اب میں اصل موضوع کی طرف آتا ہوں۔ 

یہ کہانی میرے اپنے گرد بھی گھومتی ہے لیکن اس کا مرکزی کردار ناتو سانسی ہے۔ 

ناتو سانسی میرے گاؤں کا رہنے والا ہے اور کچھ عرصہ سے گاؤں چھوڑ کر شہر میں آ گیا ہے۔ آپ نے اخبارات میں پڑھا ہو گا کہ کچھ عرصہ سے شہر میں چوری کی انوکھی وارداتیں ہو رہی ہیں۔ چوروں کی ایک ٹولی بڑے بڑے بنگلوں میں گھس کر یا نقب لگا کر باورچی خانوں سے کھانے پینے کی ہر چیز چٹ کر جاتی ہے۔ ان بھوکے پیاسے چوروں کے ہاتھ جو چیز لگتی ہے وہ کھا پی کر غائب ہو جاتے ہیں۔کپڑے، زیور، نقدی اور دوسری قیمتی چیزوں کو ہاتھ نہیں لگاتے۔ وہ شربت، بیئر اور اسکوایش کی بوتلیں پی جاتے ہیں۔ ریفریجریٹروں میں رکھی ہوئی آئس کریم، پھل،مکھن اور ڈبل روٹیاں کھا جاتے ہیں اور جتنی بھی شکر ملے پھانک جاتے ہیں۔ 

رب نے ہر انسان کی روزی مقرر کی ہوئی ہے۔ 

وہ پتھر میں کیڑے کو بھی پالتا ہے۔ 

اس نے ہر آدمی کا حصہ زمین کے اندر کہیں نہ کہیں چھپا کر رکھ دیا ہوا ہے تاکہ وہ دنیا میں آئے تو اپنا حصہ تلاش کر لے۔ 

کچھ لوگ اپنا حصہ تلاش نہیں کرتے اور بھوک سے مر جاتے ہیں یا مانگ تانگ کر اور چھین جھپٹ کر وقت گزارتے ہیں۔ 

بعض دوسروں کے حصے بھی تلاش کر لیتے ہیں،پھر مانگنے والوں کو تھوڑا تھوڑا دے کر دعائیں لیتے اور ثواب کماتے ہیں۔ 

چوروں کی یہ ٹولی بھی اپنا حصہ تلاش کرتی پھرتی ہے۔ 

اندازہ لگایا گیا ہے کہ اس ٹولی میں کم از کم چھ سات چٹورے آدمی ضرور ہیں،جو دس بارہ آدمیوں کی خوراک ایک ہی وقت میں ہضم کر جاتے ہیں۔ ٹڈی دل کی طرح جہاں سے گزر جاتے ہیں ہر چیز کا صفایا کر دیتے ہیں۔ 

مجھے شبہ ہے ناتو سانسی ان میں ضرور شامل ہے۔ 

میں نے اسے کئی مرتبہ بس اسٹاپوں، پھل فروٹ کی دکانوں اور سینماؤں کے ٹی اسٹالوں پر دیکھا ہے۔ اس نے بھی مجھے دیکھا ہے لیکن شاید میرے لباس کی وجہ سے وہ مجھے پہچان نہیں سکا یا پھر جان بوجھ کر اجنبی بنا رہا کہ سلام نہ کرنا پڑے۔ مجھے یاد ہے اس نے زندگی بھر گاؤں کے کسی زمیندار یا چودھری کو سلام نہیں کیا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ ہر ایک کو اس پر خواہ مخواہ غصہ آ جاتا تھا۔ مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ لوگوں کو اس پر محض اسی وجہ سے غصہ آتا تھا۔ شہر آنے سے پہلے اس نے گاؤں والوں کا ناک میں دم کر رکھا تھا۔ ابا جی کو ڈر تھا کہ وہ شہر آ کر مجھے ڈھونڈ لے گا اور پھر روزگار یا بھیک کے سلسلے میں مجھے اکثر پریشان کرتا رہے گا۔ لیکن اس نے تو مجھے پہچاننے سے ہی انکار کر دیا ہے اور اسے اس کی ضرورت بھی کیا ہے۔ میں نے کئی مرتبہ اسے گلے سڑے پھل جمع کرتے اور سگریٹ کے ٹکڑے چنتے دیکھا ہے۔ سینماؤں میں انٹرول کے وقت وہ ٹی اسٹالوں پر کھڑا نظر آتا ہے اور کوکا کولا اور سیون اپ کی بوتلوں میں بچے کھچے گھونٹ پیتا ہے،جنہیں لوگ اس لئے چھوڑ جاتے ہیں کہ ان کے پیٹ میں جگہ نہیں ہوتی کئی بار میرا جی چاہا اسے اپنے پاس بلاؤں اور کچھ دے ڈالوں مگر اس کی بے نیازی دیکھ کر ارادہ ترک کرنا پڑا۔ وہ میری طرف دیکھتے ہوئے فلٹر ٹپڈ سگریٹوں کا دھواں اڑاتا اور باری باری ہر بوتل سے بچا کھچا سوڈا واٹر پیتا رہتا ہے۔ اس نے کبھی میری پرواہ نہیں کی۔ اسے شاید کسی کی بھی پرواہ نہیں۔ اسے باپ کی بھی نہیں جسے اس کے بدلے گاؤں والوں نے مار مار کر ادھ موا کر دیا اور چمڑی ادھیڑ دی تھی۔ اس کا باپ عرصہ سے اپنی ادھڑی ہوئی کھال، کٹے پھٹے جسم اور ٹوٹی ہوئی ہڈیوں سمیت چارپائی پر پڑا کراہتا رہتا ہے۔ مگر ناتو نے پلٹ کر کبھی اس کی خبر نہیں لی۔ 

ہم دونوں ایک ہی گاؤں کے رہنے والے ہیں لیکن ہم ایک دوسرے کو دور دور سے اجنبیوں کی طرح دیکھتے ہیں۔ ہمارے درمیان روز بروز فاصلہ بڑھتا جا رہا ہے۔وہ مجھ سے ہی نہیں کبھی کسی سے مدد یا خیرات لینا نہیں چاہتا اور میں سوچتا ہوں کہ آخر نا توؔ میرے کس کام آ سکتا ہے؟ 

میں نے گاؤں میں بھی شاید ہی کبھی اس سے بات کی ہو۔ میرا اس سے کبھی تعلق نہیں رہا۔ ہاں اس کی ماں عالمے اور بہن مادو ہر روز بھیک مانگنے گاؤں کا چکر لگاتی ہوئی ہمارے ہاں بھی آتیں اور رسمی سی بے لجاجت دعائیں دیتیں۔ مجھے دیکھ کر اکثر تھوڑی بھیک پر قناعت نہ کرتیں اور اماں کو معمول سے کچھ زیادہ دینا پڑتا۔ 

شیروؔ اس کا باپ تھا۔ باپ بیٹا دونوں کوئی کام نہیں کرتے تھے۔ کام نہ کرنا ان کی خاندانی روایت تھی۔ وہ چوری کر سکتے تھے، ڈاکہ ڈال سکتے تھے، قتل کر سکتے تھے، شکار کھیل سکتے تھے مگر کام کرنا ان کے بس کی بات نہ تھی۔ وہ عالمے اور مادو کی جمع کی ہوئی بھیک مزے لے لے کر اڑاتے مگر خود بھیک نہیں مانگتے تھے۔ مانگ ہی نہیں سکتے تھے۔چوہڑوں، سانسیوں اور آبادی سے ہٹ کر رہنے والوں میں ایک خاص طرح کی اکڑ ہوتی ہے۔وہ انہیں کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے سے باز رکھتی۔ 

وہ حرام حلال کے چکر میں نہیں پڑتے تھے۔ کچھوے، بلیاں، گیدڑ، نیولے اور لومڑیاں سب کچھ کھا جاتے تھے۔ مرے ہوئے مویشیوں کا ماس، کتوں، کوؤں اور گدھوں سے چھین کر ہڑپ کر جاتے تھے، ماس کھانا انہیں بے حد مرغوب تھا خواہ وہ مرے ہوئے مویشیوں کا ہو یا مارے ہوئے مویشیوں کا۔۔ ہم آپ مردار جانور یا مویشی کا ماس نہیں کھاتے۔ کھانے کے لئے اسے خود مار لیتے ہیں۔ ہم زندہ مویشیوں کی بوٹیاں نہیں اتارتے، زندہ انسانوں کی بوٹیاں اتار لیتے ہیں۔ لیکن وہ الگ مسئلہ ہے۔ 

شیرو بڑا بھلا مانس اور قناعت پسند آدمی تھا۔ اس نے آج تک ریل گاڑی نہیں دیکھی تھی۔ وہ کبھی شہر نہیں گیا تھا۔ وہ شکار اور مردار پر گزارہ کر لیتا تھا یا پھر عالمے اور مادو کی لائی ہوئی بھیک سے پیٹ بھر لیتا تھا۔ اکثر دارو پی کر اور چلم پر کیکر کی چھال کے انگارے رکھ کر وہ،دیوار سے ٹیک لگائے، گدھوں کی پرواز کا جائزہ لیتا رہتا۔مگر ناتو نے گاؤں والوں کا جینا دو بھر کر دیا تھا ہوش سنبھالتے ہی وہ کھیتوں، کھلیانوں میں ہر جگہ ہاتھ صاف کرنے لگا تھا۔ وہ ڈربوں سے مرغیاں ہی نہیں، باڑوں سے بھیڑ بکریاں بھی اٹھا کر لے جاتا اور ان کو مار کر کھا جاتا تھا۔ وہ کھیت میں گھس جاتا تو کسی جنگلی بھینسے یا سور کی طرح مرلہ مرلہ جگہ صاف کر دیتا۔ مولیاں، گاجریں، شلجم، خربوزے جو کچھ بھی ہوتا وہ فصل اجاڑ کر رکھ دیتا۔ گنے کا پھوگ دیکھ کر لگتا جیسے بہت سا کماد بیلنے میں پیلا ہو گیا ہو۔ یہی نہیں وہ چراگاہوں میں چرتی بھینسوں، گایوں اور بکریوں کا دودھ پی جاتا۔ کئی بار اس کی پکڑ دھکڑ ہوئی اور اسے مارا پیٹا گیا مگر وہ کبھی باز نہ آیا۔ 

لوگ اس سے ڈرتے بھی تھے اور اکیلا دکیلا آدمی اس سے الجھنے سے گریز کرتا تھا۔ اس سے دشمنی سہیڑنا بھی خطرے سے خالی نہ تھا۔اس کا کیا بھروسہ کب کیا اٹھا کر لے جائے، یا سر پر دے مارے۔ 

عالمے اپنی جوان بیٹی کے ہمراہ جب صبح کو گھر گھر مانگنے جاتی تو اسے بھیک کی بجائے گالیاں اور شکایتیں ملتیں۔ وہ بیبیوں کو دعائیں دیتی، ان کی ہاں میں ہاں ملاتی اور اوپر ے دل سے ناتو کو بد دعائیں دیتی جاتی۔ 

ایک بار میں گاؤں گیا تو پتہ چلا، ناتو شہر چلا گیا ہے۔ وہ شیرو کو اکثر دھمکیاں دیا کرتا تھا کہ میرا بیاہ کر دو ورنہ میں کسی عورت کو خود اٹھا لاؤں گا یا پھر شہر چلا جاؤں گا۔ جہاں کوکے کولے پیوں گا، پھل فروٹ کھاؤں گا اور جہاں مجھے کوئی نہ کوئی عورت بھی مل جائے گی۔ 

ناتو کے چلے جانے سے گاؤں والے خوش تھے مگر وہ جاتے جاتے جن بھوتوں کی طرح ہاتھ دکھا کر گیا تھا۔ پتہ نہیں یہ واقعہ پیش نہ آتا تو ابھی وہ شہر نہ جاتا۔ 

پنچایت کے سامنے شیرو اور عالمے کے بیانات سے پتہ چلا تھا کہ اس روز بڑی سردی تھی۔ ٹھنڈی برفانی ہوائیں چل رہی تھیں اور بوندا باندی ہو رہی تھی۔ 

اس روز شیرو نے دارو کے نئے مٹکے کا ڈھکنا پہلی مرتبہ کھولا تھا اور دارو کی بو تالاب کے دوسرے کنارے تک پھیل گئی تھی۔ شیرو نمبردار کی مری ہوئی بھینس کا پانچ سات سیر گوشت کاٹ لایا تھا اور اسے انگاروں پر بھون رہا تھا۔ 

ناتو سارے گاؤں میں باؤلے کتے کی طرح ماس ڈھونڈتا پھرتا تھا۔ بھیڑ، بکریوں اور دوسرے جانوروں کا تازہ گوشت کھا کھا کر اب ناتو کو مردار اچھا نہیں لگتا تھا۔ گاؤں کی گلیوں میں بچھڑے کے تازہ اور کچے گوشت کی بو پھیلی ہوئی تھی۔ رحمو موچی کے گھر سے لوگ سیر دو سیر گوشت خرید کر نکلتے تو ناتو کا جی چاہتا وہ جھپٹ لے اور بھاگ جائے۔ اس نے رحمو موچی کے گھر میں بد نیتی سے جھانک کر دیکھا تھا وہاں بہت سے آدمی اور گوشت کاٹنے کے اوزار تھے۔ وہ کچھ دیر سوچتا رہا حملہ کرے نہ کرے،پھر وہاں سے پلٹ آیا۔ 

وہ عالمےؔ کے سانپ ڈسوانے کے دن تھے مگر پتہ نہیں دنیا بھر کے سانپ کن بلوں میں جا چھپے تھے۔ اس کا جسم پھوڑے کی طرح پک رہا تھا اور اسے یوں لگتا تھا جیسے ابھی ابھی اس کے جسم سے زہر کے پرنالے بہنے لگیں گے۔ 

اگر اس کے ڈسوانے کے دن نہ ہوتے تو عالمے ناتو پر مادو کا راز کبھی نہ کھلنے دیتی۔ مگر اب وہ مادوؔ کو گھسیٹ کر اپنے ساتھ لے جانا چاہتا تھا۔۔ پتہ نہیں وہ اس کے ساتھ کیا سلوک کرے، اسے کہاں بیچ دے اور اس کے بدلے میں اپنا بیاہ رچا لے۔۔ عالمے نے اسے روکنے کی کوشش کی تھی مگر ایک ہی دھکا کھا کر اٹھنے کے قابل نہ رہی تھی۔ 

ناتو کے بگڑے ہوئے تیور دیکھ کر شیرو سے نہ رہا گیا وہ تلخی سے ہنس کر بولا: 

’’اسے چھوڑ دے ناتو۔۔ یہ عورت نہیں ہے۔‘‘ 

’’عورت نہیں ہے؟‘‘ ناتو کو جیسے سانپ نے ڈس لیا۔ 

’’ہاں پتر۔۔ یہ رب کی قدرت ہے۔۔ یہ عورت ہے نہ مرد،یہ تو کچھ بھی نہیں ہے۔‘‘ 

پھر اس نے آگ پر گوشت کے بڑے بڑے ٹکڑے بھونتے ہوئے آسمان کی طرف دیکھا اور ٹھنڈی آہ بھر کر بولا۔ 

’’جب رب اسے بنانے لگا، مٹی کم پڑ گئی۔۔ رب کو اور بہت سے کام ہوتے ہیں،اس نے اور بہت کچھ بنانا ہوتا ہے۔‘‘ ناتو نے غصے سے رب کی طرف دیکھا مگر رب نے اسے کوئی جواب نہ دیا۔ 

اس نے شیرو کی طرف دیکھا۔ وہ ادھ بھنا گوشت ہڑپ کئے جا رہا تھا۔ 

اس نے غصے سے کہا۔ ’’میں سب کو دیکھ لوں گا۔‘‘ 

اس نے ٹوٹے ہوئے دروازے کو زور سے ٹھوکر مار کر گرا دیا اور باہر نکل گیا۔ 

اگلے روز چودھریوں نے ڈنگر ڈاکٹر کو بلوایا اور کہیں شام کو جا کر پتہ چلا کہ زندہ گائے کی داہنی ران کو چیر کر سیر دو سیر گوشت نکالا گیا اور کھال میں بھس بھر کر اسے تندی سے سی دیا گیا ہے۔ لوگ ناتو کی تلاش میں نکلے مگر وہ کوکے کولے پینے اور پھل فروٹ کھانے شہر چلا گیا تھا۔ 

میں نے آپ کو بتایا تھا کہ شہر میں کچھ عرصے سے چوری کی انوکھی وارداتیں ہو رہی ہیں چوروں کی ایک ٹولی بنگلوں میں گھس کر کھانے پینے کی ہر چیز چٹ کر جاتی ہے۔ 

پولیس کا خیال ہے کہ اس ٹولی میں کم از کم چھ سات آدمی ہیں لیکن میرا دل کہتا ہے کہ ایک ہی آدمی ہے جو کئی صدیوں سے بھوکا ہے۔ 

   1
0 Comments